#وادی_ایلم وادی ایلم بونیر کی وہ وادی ہے جو سطح سمندر سے 8000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ وادی اپنی خوبصورتی اور دلکش نظاروں کی وجہ مشہور ہے۔ وہاں کے چشمے اور ابشاریں وادی ایلم کی خوبصورتی کی عکاسی کرتا ہے۔ وہاں کے لوگ امن پسند،محنت کش،اور مہمانواز ہیں۔ یہ اس وادی میں امن اور خوشحالی ہے۔لیکن بونیر کی انتظامیہ نے وادی ایلم والوں کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا ہیں۔ وہاں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے پرائمری سکولز تو ہیں لیکن سٹاف نہ ہونے کے برابر ہیں ۔بچے اپنی ذمہ داری تو پوری کررہی ہیں لیکن سٹاف اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہیں۔یہ لوگ ہسپتال کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔وہاں کی سڑک انتہائی خستہ خالی کا شکار ہیں۔یہ سڑک سابق صوبائی سپیکر جناب بخت جہان کے دور میں تعمیر ہوا تھا۔لیکن حکومت ختم ہونے کی وجہ سے اس سڑک پر دوبارہ کام نھیں ہوا۔اس سڑک پر جیپ کے علاوہ دوسری گاڑیوں کا جانا ناممکن ہیں۔وہاں بجلی کی بھی ناقص صورت حال ہیں۔وہاں بجلی کی کمبے تو ہیں لیکن اس میں بجلی نھیں ہیں۔ان لوگوں کا کہنا تھا کہ جب الیکشن قریب آتا ہے تو مختلف سیاسی پارٹیوں کے لوگ وادی ایلم میں ڈیرے ڈالتے ہیں اور...
#حکیم_صاحب آپ لوگوں سے ایک ایسی شخصیت کی تعارف کرانا چاہتا ہو کہ جس نے زندگی میں بہت سے مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا ہے زندگی کے ایسے لمحات گزارے ہے جو درد اور غم سے ڈھکی ہے ایسا انسان ہے کہ جس نے جوانی کے لمحات طلبہ کی سب سے بڑی اور منظم تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ میں گزارے ہے زمانہ طالبعلمی میں دین کی راہ میں بہت سی قربانیاں دی ہے ہر وقت دین کی کام میں مصروف عمل رہتا تھا دین کی راہ میں بہت سی تکالیف اور ازیتیں برداشت کی ہے دین کی فہم کے لئے بڑے بڑے علماء کرام سے علمی واسطہ پڑا ہے انکی زبانی وہ کہہ رہا تھا کہ زمانہ طالبعلمی میں تحریک اسلامی کے بانی جناب سید ابوالاعلی مودودی رح سے تین دفعہ ملاقات ہوئی ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے دین کی صحیح تشریح ان سے سیکھا ہے انکا شمار بونیر جمعیت کے بانیوں میں ہوتا ہے کیونکہ حاجی فضل رازق مرحوم صاحب کے ساتھ تحریکی اسلامی کا کام کیا ہے جب زمانہ طالبعلمی میں مالی مشکلات زیادہ ہوئے تو بونیر سے ہجرت کرنی پڑی اور روشنیوں کے شہر کراچی کا رخ کیا جس کی وجہ سے تعلیم پر بھی اثر پڑی اور تعلیم سے دور ہوئے شہر کراچی میں وہ ...
#تعلیم_ہمارا_حق ایک خاندان جو چار بھایئوں پر مشتمل تھا ۔بھائیوں کے درمیان بہت محبت تھا بڑا بھائی کپڑے کا کاروبار کرتا تھا درمیان والے دو بھائی شہد کا کاروبار کرتے تھے جو چھوٹا تھا وہ سکول میں ٹیچر تھا سب بھائی اکھٹے رہتے تھے بڑے بھائی کو باپ کی نظر سے دیکھتے تھے بڑے بھائی کو سب گھر والے لالا جان کہتے تھے گھر کے تمام فیصلے بڑے بھائی کرتے تھے لالا جان جو فیصلہ کرتا تھا وہ سب کو قابل قبول ہوتا کوئی انکے فیصلے کے خلاف نہیں کرتا بڑے بھائی نے میٹرک تک تعلیم کی تھی لیکن عربت اور مجبور کی وجہ سے باقی تعلیم مکمل نہیں کی درمیان والے دو بھائیوں نے صرف ایم اے کی ڈگریا حاصل کی تھی جو چھوٹا تھا اس نے ایم فیل کیا تھا اور پی ایچ ڈی جاری تھی یہ خاندان جس معاشرے میں زندگی بسر کرتے تھے وہ تعلیم سے بے خبر معاشرہ تھا انکے نظر میں تعلیم کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے اس معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کو گناہ سمجھا جاتا تھا جو چھوٹا بھائی تھا اس نے مشکل سے تعلیم حاصل کی تھی چھوٹے بھائی کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی بیٹے کا نام ایاز تھا اور بیٹی کا نام عائشہ تھی ایاز تعلیمی لحا...
Comments
Post a Comment