#تعلیم_ہمارا_حق


ایک خاندان جو چار بھایئوں پر مشتمل تھا ۔بھائیوں کے درمیان بہت محبت تھا بڑا بھائی کپڑے کا کاروبار کرتا تھا درمیان والے دو بھائی شہد کا کاروبار کرتے تھے جو چھوٹا تھا وہ سکول میں ٹیچر تھا سب بھائی اکھٹے رہتے تھے بڑے بھائی کو باپ کی نظر سے دیکھتے تھے بڑے بھائی کو سب گھر والے لالا جان کہتے تھے گھر کے تمام فیصلے بڑے بھائی کرتے تھے لالا جان جو فیصلہ کرتا تھا وہ سب کو قابل قبول ہوتا کوئی انکے فیصلے کے خلاف نہیں کرتا
بڑے بھائی نے میٹرک تک تعلیم کی تھی لیکن عربت اور مجبور کی وجہ سے باقی تعلیم مکمل نہیں کی 
درمیان والے دو بھائیوں نے صرف ایم اے کی ڈگریا حاصل کی تھی جو چھوٹا تھا اس  نے ایم فیل کیا تھا اور پی ایچ ڈی جاری تھی  یہ خاندان جس معاشرے میں زندگی بسر کرتے تھے وہ تعلیم سے بے خبر معاشرہ تھا انکے نظر میں تعلیم کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے اس معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کو گناہ سمجھا جاتا تھا
جو چھوٹا بھائی تھا اس نے مشکل سے تعلیم حاصل کی تھی
چھوٹے بھائی کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی 
بیٹے کا نام ایاز تھا اور بیٹی کا نام عائشہ تھی ایاز تعلیمی لحاظ سے کمزور تھا صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے بڑے چچا کے ساتھ کپڑے کا کاروبار کرتا تھا بلکہ
بیٹی عائشہ کو تعلیم سے بہت محبت تھی ہر وقت پڑھائی میں مصروف ہوتی تھی ہر امتحان میں وہ سکول ٹاف کرتی تھی
 جب عائشہ نے ہشتم جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل اور نہم جماعت کو پاس ہوئی تو انکے بڑے چچا نے انکو سکول جانے سے روک دیا اور کہا کہ آج کے بعد آپ سکول نہیں جائینگی تو اس وقت عائشہ بہت اداس ہوگئ اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوئی عائشہ نے اپنے چچا کو بہت منت کی کہ مجھے سکول جانے سے مت روکو مھجے پڑھائی  سے بہت شوق ہے
مگر وہ نہیں مانا
رات کو جب عائشہ کا والد آیا تھا اس نے عائشہ سے پوچھا کہ کیوں اداس بیٹھی ہو کیا مسلہ ہے 
ٹیچر نے کچھ کہا ہے 
تو عائشہ بولی نہیں بابا آج میں سکول نہیں گئی تھی  تو بابا نے کہا کیوں بیمار تھی 
تو عائشہ بولی نہیں بابا
 لالا جان نے کہا تھا کہ اج کے بعد تم سکول نہیں جاو گی تو بابا نے کہا کہ کیوں تو عائشہ نے بولی کہ مجھے پتہ نہیں 
جب یہ سنا تو عائشہ کا بابا اپنے بڑے بھائی سے ملنے گیا تو بڑا بھائی اپنے کمرے میں تھا تو اس نے اجازت مانگ لی اور سلام کیا 
اسکے بعد لالاجان(یعنی بڑے بھائی) نے کہا کہ کیا بات ہے
 تو عائشہ کے بابا نے کہا کہ عائشہ آج سکول نہیں گئی تھی 
تو اس پر لالا جان نے کہا کہ میں نے سکول جانے نہیں دیا کیونکہ ہمارے معاشرے میں لڑکیاں سکول نہیں جاتی  اور یہ ہمارے لئے بڑی شرمندگی کی بات ہوگی کہ ہم اپنی لڑکیوں کو سکول جانے دینگے یہ ہمارے معاشرے کے خلاف ہے لوگ کیا کہے گے 
 اس وجہ سے وہ آج کے بعد نہیں جائینگی 
تو عائشہ کے بابا نے جواب دیا کہ ہمارا اس سے کیا لینا دینا کہ لوگ کیا کہے گے ہمیں تو قرآن وسنت کا ماننا ہوگا جو قرآن وسنت میں ہے ہم ان پر عمل کرینگے 
قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو علم رکھتے ہے اور وہ جو علم نہیں کیا وہ برابر ہوسکتے ہے ؟ 
اور اسطرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتا ہے کہ علم ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے 
تو پھر ہم کون کہ لڑکیوں کو تعلیم سے روکے اسلام جس چیز کی اجازت دیتا ہے وہ ہم کرینگے اور جس چیز  سے منع کرتا ہے وہ ہم نہیں کرینگے 
اس پر لالا جان نے کہا کہ آپکی بات درست لیکن ہمارے معاشرے میں ایک لڑکی نے بھی تعلیم حاصل نہیں کی ہے میں اپنے آپکو لوگوں کے سامنے بے عزت نہیں کرنا چاہتا 
تو عائشہ کے بابا نے کہا کہ کہ لالا جان آپ پھر اس جہالت سے بھرے معاشرے کی بات کرتے ہو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو کیوں نہیں دیکھتے کہ امہات المومینین خضرت عائشہ نے کتنے احادیث یاد کیں تھے صحابہ کرام رض ان سے احادیث نقل کرتے تھے اسطرح کے بہت سے صحابیات رض نے علم حاصل کیا تھا
اس میں بے عزتی کی کیا بات ہے  اگر بے عزتی کی بات ہوتی تو صحابیات رض علم حاصل نہیں کرتے 
پھر میں اور آپ کون کہ عائشہ کو سکول جانے سے روک دیں 
آخر میں لالا جان نے کہا کہ بس میں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نہیں جائینگی  اس پر دونوں بھائیوں کر درمیان بحث شروع ہوئی تو بڑے بھائی نے گھر والوں کو جمع کیا اور کہا کہ اگر یہ اپنی بیٹی کو سکول جانے دینگی تو پھر یہ ہمارے گھر کاروبار اور اس گاوں سے نکال دیا جائے گا نا انکو کچھ دیا جائے گا اور نہ ہم ان سے تعلق رکھے گے وہ جہاں جانا چاہتا ہے جائے 
 پورے خاندان والوں نے لالا جان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے یہ ضد رکھی تھی اور کہا کہ اگر انکو منظور ہے تو صبح اپنے لئے گھر تلاش کریں اس پر عائشہ کہ بابا نے کہا کہ مجھے منظور ہے 
اس جواب پر سارے خاندان میں غم کی فضا قائم ہوئی 
عائشہ رونے کی حالات میں  اپنے بابا سے کہی کہ مجھے تعلیم نہیں چاہئے میں سکول نہیں جاو گی  بابا خدا کے لئے ہم یہ گھر نہیں چھوڑ ینگے لیکن عائشہ کے بابا نے بھی نہیں مانا 
وہ رات سب کے لئے قیامت سے کم نہیں تھی 
بڑے بھائی اپنے  لئے شرمندگی محسوس کرتے تھے تو چھوٹا بھائی اپنے آپ کو گناہ سے بچانا چاہتے تھے 
جب صبح ہوئی تو عائشہ کے بابا نے جانے کی تیاری کی تھی اور ضروت کی اشیاء لیں کر جب گھر سے روانہ ہوئے تو وہ وقت ماتم سے کم نہیں تھی ہر آنکھ اشکبار تھی بڑا بھائی بھی دروازے میں کھڑا تھا اور زور زور سے رو رہا تھا کھبی دل میں آتا تھا کہ روک  دو لیکن پھر انا اور ضد عالب ہوتا تھا 
اور عائشہ کا بابا بھی اس کی طرف دیکھتا تو دل ہی دل میں سوچتا تھا کہ میں نے اپنے بھائی کے فیصلے کی خلاف کی ہے  اس وقت عائشہ رو رہی تھی اور گھر سے نکل رہی تھی 
 عائشہ کے باپ نے دوسرے جگہ گھر تلاش کی اور وہاں رہنے لگے 
عائشہ کے باپ کے پاس کوئی پیسے بھی نہیں تھے اور نہ عائشہ کے بھائی کا کوئی کام ن تھا ایک ماہ انہوں نے بہت مشکل سے گزار دی جب ماہ پوری ہوئی تو عائشہ کے بابا کی تنخواہ سے گزارا ہوا 
عائشہ کے بھائی نے بھی اپنے لئے کام ڈھونڈا 
عائشہ کے بابا نے عائشہ کو لڑکیوں کی سکول میں داخلہ دلوایا 
عائشہ روز سکول جاتی تھی اور بہت محنت کرتی تھی 
انکو وہ سارا واقعہ یاد ہے جو انکے بابا کے ساتھ ہوا اس وجہ سے وہ چاہتی تھی کہ ایسی تعلیم حاصل کریں کہ پورا معاشرہ میرے بابا جان پر فخر کریں اور انکے ساتھ مل کر لڑکیوں کو تعلیم کی زیور سے آراستہ کریں 
اس سوچ کو دل میں لئے عائشہ نے میٹرک کا امتحان دیا جب رزلٹ آیا تو پورے بورڈ میں انہوں نے زیادہ نمبرز لئے تھے اس پر عائشہ کا بابا بہت خوش تھا اور اللہ کی شکر گزاری کے لئے خیرات کیا 
اس طرح عائشہ نے اپنی تعلیم جاری رکھ سکی اور ہر امتحان کو امتیازی نمبروں سے پاس کیا جس کے نتیجے میں انکو گولڈ میڈلز بھی دیئے گئے تھے 
عائشہ نے ایم اے انگلش کی ڈگری حاصل کی 
 اور سی ایس ایس کے لئے تیاری شروع کی 
جب امتحان دیا تو اپنے بابا سے بولی کہ بابا میں نے امتحان دیا اگر ہم اللہ کی راہ خیرات کریں تو ہمارے لئے بہتر ہوگا تو بابا نے کہا یہ تو بہتر ہے اسکے علاوہ عائشہ نے قرآن مجید کا ختم بھی کیا تھا 
جب امتحان کا رزلٹ آیا تو پورے ملک میں عائشہ نے دوسری پوزیشن لی تھی جب عائشہ کو پتہ چلا تو اس نے شکرانے کے دو رکعات نفل ادا کیے 
اس دن عائشہ کے بابا بہت خوش تھے اور اللہ کا شکر ادا کیا
اس کے بعد وہ اپنے بھائیوں سے ملنے گیا جب وہاں پہنچا تو انکا بڑا بھائی نہیں تھا اور باقی دوسرے بھائی اور گھر والے موجود تھے انکو عائشہ کی کامیابی کے بارے میں بتایا تو سب گھر والے بہت خوش ہوئے اور آنکھوں سے خوشی کے آنسوؤں نکل آئے
رات کو جب بڑا بھائی گھر آیا تو گھر والے ڈر رہے تھے کہ  کس  طرح انکو بتایا جائے آخر کار جب سب اکھٹے بیٹھ گئے تو ایک بھائی نے لالا جان سے کہا کہ آج عائشہ کے بابا آیا تھا تو وہ حیران ہوگیا اور جلدی سے پوچھا کہ کیا کہہ رہا تھا تو اس نے بتایا کہ عائشہ نے سی ایس ایس کی امتحان میں پوزیشن لی ہے تو بڑا بھائی رونے لگا اور کہا کہ میں کتنا ظالم ہو کہ میں نے عائشہ کو سکول جانے سے روک دیا اور پھر انکے والد کو گھر سے نکال دیا
اگلی صبح بھائیوں سے کہا کہ میں سراسر غلطی پر تھا
لہذا آپ اس طرح کرو کہ انکو بتاو کہ مجھے معاف کریں اور مجھے جو سزا دینا چاہتا ہے تو میں تیار ہو
جب یہ پیغام انکو پہنچا تو عائشہ کے بابا نے کہا کہ معافی تو مجھے چاہئے کہ میں نے بڑے بھائی کی بے ادبی کی تھی اور انکا حکم نہیں مانا
اگلے روز بڑا بھائی خود انکے گھر گیا اور عائشہ سے کہا کہ بیٹی مجھے معاف کرو میں نے بہت بڑا ظلم کیا ہے اگر آپ نے مجھے معاف نہیں کیا تو شاید اللہ بھی مجھے معاف نہیں کریگا
عائشہ نے کہا کہ لالا جان اس طرح نہ بولو معافی تو مجھے چاہئے
اس پر لالا جان نے عائشہ کو سینے سے لگایا اور زور سے رونے لگا
لالا جان نے کہا ہے میں صرف معافی مانگنے نہیں آیا مگر آپکو سب کو ساتھ لینے آیا ہو
آج وہ سب اکھٹے رہ رہے ہیں اور عائشہ ایک ملک میں سفیر ہے
اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا معاشرہ ہمارے لڑکیوں کو انکے حق سے محروم کررہی ہیں
اگر ہم نے اس معاشرے کی اصلاح  نہیں کی تو اس طرح لاکھوں لڑکیاں اخرت میں اپنا حق مانگے گا اور پھر ہمارے ساتھ اسکا جواب نہیں ہوگا
ہمارے معاشرے میں لوگ اس چیز سے ڈر رہے ہیں کہ لڑکیاں تعلیم یافتہ ہوجائے تو پھر روشن خیالی اور آزاد خیالی کی نظر ہوجاتی ہیں مگر میں ان سے کہتا ہو انکا سارا انحصار آپکے تربیت پر ہے اگر آپ نے گھر میں اسلام کی فضاء قائم کی ہے تو آپکی بیٹی ہر گز آپکی بے عزتی اور رسوائی کی سبب نہیں بنے گی
اگر دیکھا جائے تو خضرت عمر رض کے دور میں شفتہ بنت عبداللہ پرائس کنٹرول کرنے کے عہدے پر فائز تھی
اسطرح ابن تیمیہ نے ماہر قانون دانوں کی جو لیسٹ بنائی تھی اس میں زیادہ تر صحابیات تھے
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہمیں بچیوں کی تعلیم پر زور دیتا ہے کہ بچیوں کو  دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم بھی دی جائے
 اسلئے اپنے بچیوں کی اچھی تربیت کر کے انکو علم کی روشنی سے منور بنائے تاکہ اسلام اور اس ملک کی خدمت کر سکے
حود کلامی #اسدرحمان_مہدی 

Comments

Popular posts from this blog

Elum mountain

Buner